تمام
اور خالص تعریف اللہ ہی کا حق ہے ، جِس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ
بھیجا ، اور اُسے اپنی وحی کے مطابق کلام کروایا ، اور اپنے رسول کے بارے
میں گواہی دہی کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں کرتا ، اور ہمیں خبر دی
کہ جو کوئی بھی اللہ کی بات کو جُھٹلائے گا اور اُس سے رُوگردانی کرے گا پس
اُس کے رسول کی اطاعت نہیں کرے گا اللہ ایسے ہر شخص کو بڑھکتی ہوئی آگ
میں داخل کرے گا ۔
ہم
مسلمانوں میں پائے جانے والے بہت سےعقائد ایسے ہیں جن کے ٹھیک ہونے کا
اسلامی تعلیمات میں کوئی صحیح ثابت شدہ ثبوت نہیں ملتا ، یعنی نہ تو اللہ
تبارک و تعالیٰ کی کتاب میں ان عقائد کی درستگی کی کوئی دلیل ملتی ہے اور
نہ ہی خلیل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی یا
تقریری سُنّت میں سے ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے
اقوال و افعال میں ، بس ،
لوگوں کی خود ساختہ من گھڑت روایات ہیں ، اور باتیں ہیں ، جنہیں رسول اللہ
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب کیا گیا ، اور اسی طرح کے کچھ
بے ثبوت قصے کہانیاں ، خواب ، اور تخیلات ہیں ،
ایسے
ہی خود ساختہ ، مَن گھڑت عقائد میں کچھ خاص پتھروں کے بارے میں اس قسم کے
عقیدے بھی پائے جاتے ہیں کہ وہ پتھر انسان کے لیے روحانی یا مادی فائدہ
یا نقصان پہچانے کی قدرت یا صلاحیت رکھتے ہیں ، مختلف پتھروں کے بارے میں
اس قسم کے عقائد بھی خود ساختہ اور من گھڑت ہی ہیں کہ اگر انہیں پہنا جائے
تو وہ پتھر انسان کوکوئی فائدہ پہنچاتے ہیں ، یا مختلف قسم کی تکلیفوں ،
بیماریوں اور پریشانیوں وغیرہ سے بچاتے ہیں ، ان
خلافء اسلام عقائد کو کچھ مضبوط بنانے کے لیے ، اور ان کی گمراہی کو درست
دکھانے کے لیے ان پتھروں کے اثرات کو ستاروں سیاروں کے اثرات اور ان کی
چالوں سے بھی جوڑا جاتا ہے ، جو کہ گمراہی پر گمراہی کے مصداق ہے ، ستاروں
اور سیاروں کی چال اور اثرات کی حقیقت ایک الگ مضمون کا مطالعہ بھی مفید رہے گا اس کا ربط درج ذیل ہے۔
کچھ لوگ ان پتھروں ، اور زیورات کے لیے استعمال ہونے والی مختلف دھاتوں کے بارے میں کچھ ایسی غیر حقیقی باتیں بھی مانتے ہیں کہ یہ مختلف دھاتیں اور پتھر انسانی جسم پر اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں ، اور مختلف قسم کی بیماریاں ختم کرتے ہیں ، اور انسانی جسم میں فائدہ مند مواد بناتے اور بڑھاتے ہیں، اگر ایسا ہی ہوتا ، تو ہمارے اس موجودہ دور کی ترقی یافتہ میڈیکل ، اور میڈیسن سائنس کے ماہرین طرح طرح کی جڑی بوٹیوں اور جسم کے اندر داخل کیے جانے والے مختلف مواد کی دوائیاں بنانے میں جان کھپانے کی بجائے ان پتھروں اور دھاتوں کے ذریعے علاج کرتے ہوئے نظر آتے ، کیونکہ جسم کے اندر داخل کیے جانے والی ادویات کے جانبی نقصانات (Side effects)ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں ، جو اکثر اوقات وقتی طور پر ملنے والے آرام کے بعد پہلی بیماری سے زیادہ اور بڑی بیماری کا سبب بنتے ہیں ، ان سے بچے رہنے کے لیے یہ پتھر اور دھاتیں اچھی رہتیں کہ یہ نہ تو جسم میں داخل ہوتیں اور نہ ہی جانبی نقصانات ہوتے ، اگر یہ کہا جائے کہ یہ پتھر اور دھاتیں بہت قیمتی ہوتی ہیں ، صرف مالدار لوگ ہی استعمال کر سکتے ہیں ، تو بھی ان کے ذریعے علاج کے عملی نمونے تو ملنے ہی چاہیں تھے ۔
اور مالدار لوگ سفید بستروں پر سسکتے ہوئے ، دوسرے کے محتاج بنے ہوئے ، بہت زیادہ مال ہوتے ہوئے بھی اللہ کی کئی نعمتوں کو استعمال نہ کرنے کی حالت ، میں دکھائی نہیں دینا چاہیے تھے اگر کوئی ان پتھروں یا دھاتوں کو کسی طرح کھنچ تان کر سائنسی تحقیقات کی روشنی میں رکھ کر اپنی بد عقیدگی کی درستگی کی کوئی دلیل بنا بھی لے تو بھی وہ کوئی یقینی محقق بات نہیں کیونکہ ان پتھروں اور زیورات کے لیے استعمال ہونے والی دھاتوں کے بارے میں سائنسی طور پر بھی کوئی یقینی ثابت شدہ بات ایسی نہیں ملتی جو ان چیزوں کو انسانی جسم پر کسی قسم کے اچھے یا برے اثرات مرتب کرنے والے ثابت کر سکے ، اور عملی طور پر بھی ، اور بالفرض محال اگر مل بھی جائے تو بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس کی تصدیق اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عطاء فرمودہ خبروں اور تعلیمات کی کسوٹیوں پر کرنا لازم ہے ، کیونکہ معاملہ ان پتھروں اور دھاتوں کی مادی تاثیر پر مشتمل باتوں تک ہی محدود نہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ دیگر ادویات یا طاقت پہنچانے والی خوراک کی طرح یہ بھی اثر رکھتے ہیں ، بلکہ معاملہ روحانی اور اللہ کی مقرر کردہ تقدیروں پر اثر انداز ہونے کی باتوں کا ہےآئیے اب ہم ان عقائد اور خبروں کو اللہ کی کتاب قران کریم اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کی کسوٹی پرپرکھ کر ان عقائد اورخبروں کی حقیقت جانتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم اللہ جلّ و علا کے کلام
، اُس کی کتاب کریم ، قران حکیم میں دیکھتے ہیں کہ کیا اللہ تبارک وتعالیٰ
نے اپنی کتاب شریف میں ان پتھروں ، یا کسی قسم کے پتھر کے بارے میں ایسی
کوئی خبر دی ہے کہ وہ انسان کی زندگی پر کسی قسم کا کوئی اثر رکھتا ہے ؟؟؟ اللہ
سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنی کتاب قران مجید میں صرف چار مقامات پر ایسے
پتھروں میں سے کچھ کا ذ،کر فرمایا ہے جن پتھروں کو نفع یا نقصان دینے والے ،
یا نقصان سے بچانے والے سمجھا جا تا ہے ، اور وہ مقامات درج ذیل ہیں۔
گویا کہ وہ (حوریں)یاقوت اور مونگے ہیں ۔ سُورت الرحمٰن آیت 22
اُن دونوں(سُمندورں ) میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں - سُورت الرحمٰن آیت 58
(وہ حوریں )چُھپے ہوئے موتی کی طرح(ہیں)سُورت الواقعہ آیت 23
اور ان (جنّتیوں)کے اِر گِرد ہمیشہ(ایک ہی عمر میں ) رہنے والے چھوٹی عمر کے لڑکے رہا کریں گے ، اگر آپ اُن(لڑکوں) کو دیکھیں تو بکھرے ہوئے موتی سمجھیں سُورت الانسان آیت 19
ان سب ہی آیات مبارکہ میں جن پتھروں کا ذِکر فرمایا گیا ہے ان میں کسی کے بارے میں ایسی کوئی خبر نہیں بیان فرمائی گئی کہ یہ پتھر انسان کی دُنیاوی زندگی میں ، یا اُخروی زندگی میں اسے کوئی روحانی یا مادی فائدہ یا نقصان پہنچانے کی قدرت یا صلاحیت رکھتے ہیں ، بلکہ صِرف آخرت میں اہل جنّت کو دی جانے والی نعمتوں کے بارے میں کچھ اندازہ کرنے کے لیے ان پتھروں کو تشبیہ ، مثال کے طور پر ذِکر فرمایا گیا ہے ، ان آیات شریفہ میں کہیں بھی ، اِشارۃً بھی ایسا کوئی ذِکر نہیں جس کی بنا پر اِن پتھروں کو انسانی زندگی میں رواحانی یا مادی طور پر کسی بھی قسم کا اثر رکھنے والا سمجھا جائے ، اور نہ ہی اللہ کے مقرر کردہ مفسر اور شارح قران محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ، اور نہ ہی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے شاگردوں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے ، اور نہ ہی اُمت کے أئمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے ان آیات شریفہ کی کوئی ایسی تفسیر بیان ہوئی ہے جس کی بنا پر ان آیات مبارکہ میں مذکور پتھروں یا ان جیسے دوسرے پتھروں یا کسی بھی اور پتھر کے بارے میں یہ سمجھا جا سکے کہ وہ انسانی زندگی میں کسی تاثیر کے حامل ہوتے ہیں ، لہذا اس قسم کے عقائد کی درستگی کے لیے اللہ کی کتاب قران مجید میں سے بھی کوئی دلیل میسر نہیں ہو پاتی۔
قران کریم کے بعد ، اللہ کے دِین کے احکام ، معاملات اور اللہ کی رضا کے مطابق عقائد کا دوسرا ذریعہ اور دوسری کسوٹی اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی یا تقریری سُنّت مبارکہ ہے ، جب ہم سُنّت شریفہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہاں بھی کوئی ایسی صحیح ثابت شدہ خبر نہیں ملتی جو کچھ خاص پتھروں کو یا کسی بھی پتھر کو انسان کی زندگی میں کسی بھی قسم کے اثر والا بتاتی ہو ، ایسی روایات جن میں کسی پتھر کے بارے میں کوئی ایسی خبر ہے کہ وہ پتھر انسان کو کسی قسم کا فائدہ دیتا ہے ، یا کسی قسم کے نقصان سے بچاتا ہے ، وہ ساری ہی روایات خود ساختہ ، من گھڑت اور جھوٹی ہیں ، جن کی حقیقت صدیوں پہلے حدیث شریف کی تحقیق کرنے والے اِماموں رحمہم اللہ جمعیاً نے واضح کر دی ہے ، مثال کے طور پر چند ایک روایات کا ذِکر درج ذیل ہے۔
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کیونکہ وہ مُبارک ہے إِمام العقیلی رحمہُ اللہ نے اس روایت کو ذِکر کرنے کے بعد کہا اس روایت کو ابن الجوزی نے "الموضوعات " میں ذِکر کیا ہے اور اس موضوع کے بارے میں (ملنے والی ساری ہی روایات میں سے)کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق غربت دور کرتا ہے
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق کاموں میں کامیابی والا ہوتا ہے اور دائیں ہاتھ سجاوٹ کا زیادہ حقدار ہے
جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اور اس پر یہ نقش کیا کہ :اور مجھے توفیق دینےو الا اللہ ہی ہے :تو اللہ اس کے لیے ہر خیر مہیا کر دیتا ہے اور دونوں مقرر فرشتے اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں
جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اس کے صِرف اسی کا فیصلہ کیا جاتا ہے جو بہترین ہوتا ہے
زمرد کی انگوٹھی پہنا کرو کہ زمرد آسانیوں والا ہے اور اس میں کوئی تنگی نہیں
زبرجد کی انگوٹھی پہنا کرو کہ زبرجد آسانیوں والا ہے اور اس میں کوئی تنگی نہیں
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق غربت دور کرتا ہے
اور اسی قِسم کی دوسری روایات جن میں ان پتھروں کے بارے میں نفع پہنچانے یا تقصان دور کرنے والے ہونے کی خبریں ہیں ، کوئی ایک روایت بھی سچی نہیں ، کوئی ایک روایت بھی حدیث کے طور پر تو کیا اُن بزرگوں سے بھی ثابت نہیں جن سے یہ منسوب کی جاتی ہیں، جیسا کہ بعض حضرات اپنے اپنے اماموں ، اور سلسلوں کے بزرگوں سے اس قسم کی خبریں منسوب کیے ہوئے ہیں ، اور اگر کسی طور یہ خبریں ان اماموں یا بزرگوں سے ثابت بھی ہو جائیں تو بھی یہ خبریں مردود ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ان خبروں کی کوئی تصدیق میسر نہیں ، بلکہ یہ خبریں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کے خِلاف ہیں۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ
اللہ
تعالیٰ لوگوں کے لیے رحمت میں سے جو کچھ عطاء کرتا ہے ، تو اللہ کے بعد
اس رحمت کو روکنے والا کوئی نہیں، اور جس کو اللہ روک لے اسے ( اللہ کے بعد
، مخلوق کی طرف)بھیجنے والا کوئی نہیں ، اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔سُورت الفاطر(آیت2،
اور ارشاد رفرمایا ہے
اور
اگر اللہ تعالیٰ آپ کو سختی میں ڈال دے تو اُس سختی کو دور کرنے والا
سوائے اللہ کے کوئی بھی نہیں ،اور اگر اللہ آپ کو خیر دینا چاہے تو اللہ کے
فضل کو دور کرنے والا کوئی بھی نہیں ، اللہ اپنے بندوں میں سےجسے چاہے
اپنا فضل عطاء فرماتا ہے اور اللہ بخشنے والا ، رحم کرنے والا ہے سُورت یُونُس آیت107
اللہ جلّ جلالہُ کے اِن فرامین کے بعد کسی پتھر یا دھات یا کسی بھی اور مخلوق کو کسی دوسری مخلوق کے لیے کسی مادی ذریعے یا سبب کے بغیر ہی کسی طور کوئی نفع پہنچانے یا کسی نقصان سے بچانے والا سمجھنا سوائے گمراہی اور تباہی کے کچھ اور نہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہر ایک مسلمان کو وہ عقائد اپنانے اور وہ عمل کرنے کی ہمت دے جن پر اللہ راضی ہوتا ہے ، اور ہر گمراہی اور شر سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
تحریر:عادل سہیل ظفر