ہم زیورات کی تیاری پر ایک ماشہ سے دوماشہ تک(ڈیزائن اور محنت کے مطابق) فی تولہ پالش(ویسٹ)وصول کرتے ہیں-
ہم اپنے تیار کردہ ہمہ قسم کے زیورات کی واپسی پہ دوماشہ فی تولہ کٹوتی کرتے ہیں۔ہماری واپسی کٹوتی کی شرح1935سے1980تک ایک ماشہ فی تولہ رہی1980سے2001تک ڈیڑھ ماشہ فی تولہ اور2001سے تاحال دوماشہ فی تولہ  ہے۔اس کے علاوہ موتی،نگینہ،لیکر،ڈبہ اور دیگر لوازمات کی قیمت الگ سے موصول کیا جاتی ہے۔مزدوری یا اجرت کے نام سے 500 روپے فی تولہ الگ سے وصول کئے جاتے ہیں۔پالش اور کٹوتی کا یہ نظام پاکستان میں برسوں سے رائج ہے اس لئے اس نظام کے مطابق اپنا کاروبار چلانا ہماری مجبوری ہے وگرنہ ہم اس نظام سے مطمئن نہیں ہے اور اپنے گاہکوں کو ہمیشہ نیا نظام اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔جس میں شک اور بے یقینی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لیکن المیہ یہ ہے کہ اکثریت نئے نظام کو سمجھنے اور اپنانے کی بجائے پالش اور کٹوتی والے نظام کو ہی ترجیح دیتی ہے۔

جدید نظام کی صورت میں ہم سونے کی تمام رقم کا بیس فیصد مزدوری کی شکل میں وصول کرتے ہیں جس میں کسی قسم کی پالش یا ویسٹ کا فرضی وزن داخل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی واپسی پہ کسی قسم کی کٹوتی کی جاتی ہے۔

زیورات پہ پالش یا ویسٹ کیا ہے؟

پاکستان میں دیہی علاقوں میں پالش اور شہری علاقوں میں ویسٹ کی اصطلاح ایک ہی چیز کے لئے استعمال ہوتی ہے۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پالش کوئی الگ چیز ہے جو زیور کے اوپر لگائی جاتی ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔پالش یا ویسٹ  ایسے وزن کو کہاجاتا ہے جو زیورات کی تیاری کے دوران کم ہوتا ہے۔زیورات کی تیاری کے دوران مختلف مشینوں اور طریقوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے جس سے سونا یا چاندی کی کچھ مقدار ضائع ہوجاتی ہے-پاکستان میں ضائع ہونے والا سونا یا چاندی بھی گاہک سے ہی  پالش یا ویسٹ کے نام سے وصول کرلیا جاتا ہے اس میں دیگر اخرجات بھی شامل ہوتے ہیں یہ پالش یا ویسٹ مختلف نمونوں کی مختلف ہوتی ہے ہم اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں دیتے ہیں کہ جتنی ویسٹ گاہک سے وصول کی جارہی ہے اتنی ہی ویسٹ ہوچکی ہے ہم مارکیٹ میں مروجہ شرح کے مطابق ویسٹ وصول کرتے ہیں حالانکہ تیاری کے دوران یہ ویسٹ کبھی وصولی سے کم بھی ہوتی ہے اور کبھی وصولی سےزیادہ بھی ہوسکتی ہے۔اگر آپ ایک تولہ زیور بنواتے ہیں تو اس زیور کا وزن تو ایک تولہ ہی ہوگا لیکن آپ کو قیمت ایک تولہ اور ایک ماشہ کی ادا کرنا ہوگی اور جب آپ زیور واپس ہمیں فروخت کریں گے تب اس ویسٹ یا پالش کا کاوئی وجود باقی نہیں ہوگا۔

زیورات کی کاٹ یا کٹوتی کیا ہے؟

زیورات کی تیاری کے دوران جوڑ لگانے کے لئے ٹانکہ کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ٹانکہ سونے یا چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں پہ مشتمل ہوتا ہے۔یا پھر زیور کی مضبوطی کے لئے اس میں ملاوٹ کرنا ناگزیر ہوتا ہے ان میں نگینے،آرائشی پتھر اور مینہ وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں کچھ سناردھوکہ کرنے کی نیت سے جان بوجھ کر اس ملاوٹ کی مقدار ضرورت سے زیادہ بڑھا دیتے ہیں جبکہ ایسا درست نہیں- ہمارے تیار کردہ زیورات میں ملاوٹ کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی حد دو ماشہ فی تولہ ہے-ہم زیور تیار کرنے سے پہلے ہی اپنے گاہکوں پہ واضح کردیتے ہیں کہ آپ سے جو ایک تولہ کی قیمت وصول کررہے ہیں حقیقت میں اس ایک تولہ میں دس ماشہ سونا اور دو ماشہ ملاوٹ ہے۔

 مزدوی،اجرت یا لیبر چارجز کیا ہیں؟

پاکستان میں مزدوری یا اجرت کے نام سے 500 روپے فی تولہ لئے جاتے ہیں اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ 500 روپے بھی ڈسکاؤنٹ کی نظر ہوجاتے ہیں پاکستان میں چند سو روپے مزدوری صرف گاہک کو ذہنی طور پر مطمئن کرنے کے لئے وصول کی جاتی ہے درحقیقت اتنی کم مزدوری اس فن کے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق ہے۔لہذا وہ ملاوٹ ہی جس کا اوپر ذکرکیا گیا ہے کسی  سنار کی کمائی ،آمدن،یا بچت ہوتی ہے۔

جدید نظام کیا ہے؟

متحدہ عرب و امارات سعودی عرب اور دنیا کے دیگر کئی ممالک میں زیورات کے اخراجات اور سنار کی کمائی کی شرح حکومتیں طے کرتیں ہیں اور اس شعبے کی نگرانی اور دیگر معاملات کے لئے ہر علاقہ میں میونسپل کمیٹی طرز کے دفاتر موجود ہوتے ہیں۔سعودیہ اور عرب وامارات میں کوئی بھی سنار اس وقت تک زیور فروخت کرنے کا مجاز نہیں جب تک وہ بلدیہ کے دفتر میں موجود لیبارٹی سے ٹیسٹ کے بعد متعلقہ اتھارٹی سے زیور کے اوپر مہر ثبت نہ کروا لے۔اس طرح وہاں گاہک اور سنار دونوں کے حقوق محفوظ رہتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں اس طرح کا کوئی قانون سرے سے ہی موجود نہیں کبھی کسی صاحب اقتدار نے اس بارے میں سوچا ہے اور نہ ہی کبھی سنار برادری نے حکومت سے ایسے کسی قانون کا مطالبہ کیا ہے کیوں اس طرح کے مطالبہ سے کالی بھیڑوں کو اپنی پچاس فی صد تک کی جانے والی لوٹ کھسوٹ بند کرنا پڑے گی جسے وہ کبھی بھی پسند نہیں کریں گے۔

اس طریقہ کا مطابق ملاوٹ سمیت جس کیرٹ کے زیورات ہیں اسی کیرٹ کا ریٹ لگایا جاتا ہے۔جب زیورات کی واپسی کی جاتی ہے تو اسی کیرٹ کا ہی ریٹ گاہک کو ادا کردیا جاتا ہے پہلے کسی قسم کی پالش یا ویسٹ وصول نہیں کی جاتی اور نہ ہی واپسی پہ کسی قسم کی کٹوتی کہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف سونا یا چاندی کی کل قیمت کا کچھ فیصد لیبرچارجز کے نام سے وصول کیا جاتا ہے اسے مزدوری بھی کہاں جاتا ہے اس میں تمام اخراجات اور سنار کی کمائی شامل ہوتی ہے۔یہ فیصدی شرح مقامی حکومت طے کرتی ہے اور یہ سونے کے بھاؤ کی طرح کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے عمومی طور پہ یہ بیس سے پچیس فیصد تک ہوتی ہے۔

پالش،ویسٹ اور کٹوتی والے نظام میں کل خرچہ یا گاہک کا نقصان

اس حساب سے ایک تولہ میں دو ماشہ ملاوٹ اور کم سے کم ایک ماشہ پالش کل تین ماشے بنتا ہے جو کہ ایک تولہ کا پچیس فیصد ہے۔اسے آپ اپنا نقصان یا سنار کی اجرت اور دیگر اخراجات کی ادائیگی کہہ سکتے ہیں۔

جدید نظام میں کل خرچہ گاہک کا کل نقصان

زیادہ سے زیادہ لیبر چارجز پچیس فیصد

جب دونوں طریقوں میں آپ سنار کو ایک ہی شرح سے ادائیگی کررہے ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں کہ سیدھا طریقہ اپنائیں اور پالش کٹوتی کی چکروں میں ہی نہ پڑیں؟جب گاہک کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں جواب ملتا ہے ہائیں ایک لاکھ کہ سونا پر آپ کو پچیس ہزار مزدوری دے دیں فلاں سنار تو صرف 800 روپے لے رہا ہے آپ تو ہمیں لوٹنے لگے ہیں اس صورت میں مجبورا ہمیں 800 کی بجائے 500 مزدوری لے کر دوسرے طریقہ سے کھاتہ پورا کرنا پڑتا ہے۔ہمیں انتہائی خوشی محسوس ہوتی ہے جب کوئی گاہک اس طریقہ کو سمجھ کر اسے اپنا لیتا ہے۔

ہم دعویٰ سے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا کوئی دوسرا سنار آپ کو یہ باتیں اتنی تفصیل سے نہیں سمجھائے گا